Thursday 25 July 2013

آداب عرض ہے !

1 comments
۔
روزہ منہ کو لگا ہوا ہے ، بجلی غائب ہوئے چار گھنٹے بیت گئے ہیں ، گرمی سے بُرا 
حال ہے ، موبائیل بار بار لَو بیٹری کا سگنل دے رہا ہے ، لیپ ٹاپ کی چارجنگ ختم ہو چکی ہے ، گھر میں ہر کوئی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے دوڑ رہا ہے کیا کیا جائے ۔۔۔۔۔ گھبرائیے نہیں کسی بچے کو پڑوسی کے گھر بھگوائیے اور آج کا تازہ اخبار منگوا لیجئے ، جاتے ہوئے بچے کو ہدایت کر دیجئے گا کہ اگر تازہ نہ ملے تو کل پرسوں کا پرانا اخبار ہی لیتے آنا ۔۔۔۔ بازار کا مشورہ اس لیئے نہیں دیا کیونکہ جب ایک چیز پر آپ کے پڑوسی خرچہ کر ہی چکے ہیں تو آپ کے دوبارہ خرچ کرنا اصراف کے ضمرے میں آئے گا ۔۔۔۔۔ اسی بچنے والے دس روپے سے آپ افطاری کے بعد دو سگریٹ پی سکتے ہیں ( یہ مشورہ خواتین کے لیئے نہیں ہے وہ ان پیسوں کے ذریعے ناز پان مصالحہ اور شاہی سپاری وغیرہ وغیرہ سے مستفید ہو سکتی ہیں ) ۔۔۔ اخبار آجائے تو اطمنان سے گیلری یا چھت کے کسی کونے میں دبک جائیے اور اسکی ورق گردانی شروع کر دیجئے
یاد رہے ہم نے ورق گردانی کا مشورہ دیا ہے مطالعہ کا نہیں۔۔۔ مطالعہ ایک وقت طلب کام ہے اور آپ کو ایس ایم ایس پیکجز سے فرصت کہاں۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اللہ کا شکر ہے اخبار بینی جیسی بری لت کا شکار انگریز زیادہ ہیں ہم نہیں ۔۔۔۔ صفحہ اول کو اتنی اہمیت مت دیجئے اس پر جھوٹے سچے سرکاری بیانوں کی کئی چھوٹی بڑی ، سر خیاں ہوں گی اور چند تصاویر ۔۔۔۔۔۔ یہ تصاویر یا تو میچ ہارے ہوئے روتے بسورتے کھلاڑیوں کی ہوں گی یا عوام کو الو بنا کر ہنستے مسکراتے بدصورت سیاستدانوں کی ۔۔۔۔۔ جنہیں دیکھ کر وہ خود ہی خوش ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔ اندرونی صفحات پر آجائیے یہاں آپ کی دلچسپی کا سامان ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں کہیں نہ کہیں آپ کو کسی اداکار یا اداکارہ کی چوتھی طلاق اور چھٹے سکینڈل کی تفصیل مل جائے گی۔۔۔۔ اگر اداکارہ یا اداکار آپ کی پسند کا ہے تو دو بار ورنی ایک بار ساری خبر پڑھ لیجئے ۔۔۔۔اِ س سے فارغ ہو جائیں تو دیکھئے گاوہیں کہیں موسم، قدرتی آفات، دہشت گردی و حادثات، ملکی بجٹ ، ڈرون ، وغیرہ وغیرہ کی خبریں بھی مل جائیں گی ۔۔۔۔ ان خبروں پربھی ارتکاز ضروری نہیں ورنہ طبیعت میں فکر مندی پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔۔۔۔۔ اب وہ صفحہ کھولیئے جسمیں اداریہ ہوتا ہے ہلکی سی نظر اس پر دوڑائیے کوئی کام کی بات تو نہیں ۔۔۔۔ اداریہ مت پڑھنے بیٹھ جائیے یہ بھی بھلا کوئی پڑھنے کی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔ اسے اخبار کا کوئی قاری نہیں پڑھتا یہاں تک کہ پروف ریڈر بھی اسے بنا پڑھے پروف کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ آپ خواتین کا صفحہ کھول لیجئے ۔۔۔۔ کم کپڑوں اور زیادہ میک اَپ میں لتھڑی ایک مشہور ماڈل کی تصویر آپ کے سامنے ہے آپ بس تصویریں دیکھ لیں کیوں کہ ان کے متعلق باتیں تو وہی لکھی ہیں جو آپ پہلے بھی کئی بار انہی جیسی ماڈلز کے بارے پڑھی ہیں مثلاً سادہ طبیعت ہوں ، بہت گھریلو ہوں یہاں تک کہ گھر کا جھاڑو پوچا خود ہی کر لیتی ہوں ، بچپن سے ہی اپنے وطن سے محبت ہے ، غریبوں کی خدمت کا شوق ہے وغیرہ ۔۔۔۔۔
آخری صفحہ پر آجائے ۔۔۔ بھلے آپ شادی شدہ بھی ہوں ضرورتِ رشتہ کے اشتہاروں پر ضرور نظر ڈالیئے کیا پتا مستقبل میں دوسری شادی کا کوئی سنہرا موقعہ میسر آجائے۔۔۔۔۔ آج کا دن کیسا گزرے گا ۔۔ یہ پڑھنا مت بھولیئے گا کہیں ایسا نہ ہو آپ جس سمت اپنی زندگی کی گاڑی لے جارہے ہیں ستارے آپ کی بے خبری کے باعث اسی کے مخالف سمت اپنا سفر شروع کر دیں۔۔۔۔
لیجیئے جناب چھ گھنٹے کی "مناسب" لوڈ شیڈنگ کے بعد آپ کی لائٹ واپس آگئی ہے۔۔۔۔۔ جلدی سے اخبار لپیٹیے، موبائل چارجنگ پر لگا کر یا تو ایس ایم ایس شروع کر دیجئے یا کمپیوٹر آن کر کے فیس یا ٹیوٹر پر لاگ آن ہو جائیے۔۔۔۔۔ ہاں مگر ایک بات کا خیال رہے ۔۔۔ ان سارے کاموں سے پہلے پڑوسیوں کا اخبار واپس بھجوانا نہ بھولیئے گا ۔۔۔۔ کیوں کہ انہوں نے شام کو اسی پر افطاری کے پکوڑوں کا تیل نتھارنا ہے ۔
فرحانہ صادق

ادریس آزاد صاحب کی کہانی " عشق کا ادھورا افسانہ " سے متاثر ہو کر لکھا گیا اقتباس

0 comments


                                                                                   (کتاب: عورت ابلیس اور خدا )


"عشق کا ادھورا افسانہ "

.

.







فریادی کے وکیل- صفائی کا بیان....



" استغاثہ کی ہر بات تسلیم مگر کہانی  کچھ یوں ہوئی کہ.......  محبوب اب خود سراپا عشق تھا ....فریادی سے محبت کا یہ عالم ہوا کہ اسکی دلجوئی کے لئے اسکی جوڑی دار اس ہی کی پسلی سے تخلیق کردی گئی..... ناز - محبت میں محبوب کا امتحان لیا گیا....لغزش مقصود تھی اسی لئے قوت - لغزش عطا  کی گئی تھی.......سو گناہ ہوا ......کوئی نہیں جانتا محبوب اور اسکی جوڑی دار میں جدائی کی سزا بوجہ حسد (شرک..... خدا کے ساتھ اپنی محبت میں کسی کو شریک کرنا ) دی گئی یا براے اصلاح .......

اب فریادی صرف ایک تخلیق اور محبوب خالق تھا..... وقت گزرتا رہا اشک - ندامت پرندوں  کو سراب کرتے رہے.....رحمت - خداوندی جوش میں آئ....سزا تمام ہوئی ....معافی نامہ  کے ساتھ کائنات کے سر بستہ رازوں کو کھوجنے کا حکم جاری ہوا.....پھر یوں ہوا کہ فریادی کو رنگینی کائنات میں مبتلا  دیکھ کر محبوب کا جذبہ خداوندی پائمال ہونے لگا....عاشق کی توجہ کے لئے جنت کا لالچ اور دوزخ کا ڈراوا دیا گیا.......مگر



اس بار تو عاشق کے سامنے لا متناہی خوش رنگ نظارے تھے ....اور ہر نظارے میں اسکا محبوب ہی چھپا تھا.....سو وہ یہ کہتا ہوا چل دیا...



         باغ بہشت سے مجھے ازن - سفر دیا تھا کیوں

 کار - جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

                

(افسانہ بہرحال اب بھی ادھورا ہی ہے )

                                           فرحانہ صادق

Wednesday 24 July 2013

""" مجبوری """

0 comments
                                 
میں نے کہہ دیا اپیا ! میں کل سے کالج نہیں جاوں گی ۔ ۔ ۔  سنبل کراہی۔ 
کیوں ! اب کیا ہوا ؟۔ ۔ ۔ ۔ استری کرتے کرتے میرے ہاتھ رک گئے
آپ جانتی ہیں ۔ ۔ ۔  اُس نے دھیرے سے سر جھکا کر کہا 
کیا کچھ کہا ہے اُس نے ؟ ۔ ۔ ۔ میں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
کہنا کیا ہے پہلے تو صرف گھور گھور کر سیٹیاں بجاتا اور گانے گاتا تھا آج تو راستے کے درمیان آکر کھڑا ہو گیا اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنبل کی آواز بھرا گئی اس سے جملہ مکمل نہ ہوسکا ۔۔۔
۔ تم پریشان مت ہو ایک دو دن گھر میں رہ کر ہی پڑھائی کر لو میں دیکھتی ہوں اسکا کیا کرنا ہے۔ ۔ ۔ میں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا ۔ ۔ 
امی بابا کی بے وقت حادثاتی موت نے  ہم تینوں بہنوں کو اکیلا اور غیر محفوظ کردیا تھا۔ صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں ہم نے چالیس سال کے تجربے حاصل کر لیئے تھے ۔ رشتے داروں کے سرد اور خودغرضانہ رویوں سے لے کر اخراجات کے عفریت تک ۔ ۔زندگی جیسے ریشمی ڈور سی الجھ گئی  مگر اب ہم نے اسے خود سلجھانا شروع کردیا تھا ۔۔۔  سب ہی نے اپنے اپنے حصے کے کام بانٹ لئیے ۔ ۔ بابا کے پرویڈنٹ فنڈ کی رقم کی سیونگ سے جو رقم ہر ماہ بینک سے آتی وہ ماہانہ اخراجات کے لئے ناکافی تھی سو صفیہ باجی نے ایک پرائیوٹ کمپنی میں جاب کرلی ۔ ۔ میرا گریجویشن  ابھی مکمل ہوا تھا ، یونیورسٹی کے داخلوں میں دیر تھی اس لیئے گھر سنبھالنے کی ذمہ داری میں نے ۔ ۔ اور ہم دونوں کو اپنی اپنی حرکتوں اور باتوں سے خوشی دینے کی ذمہ داری سنبل نے اٹھا لی ۔ ۔ ۔ ۔۔ 
سنبل اتنی چھوٹی بھی نہ تھی اسی سال اُس نے میٹرک کر کے فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تھا ۔ ۔ مگر ہمارے لئیے وہ بچہ ہی تھی اُس میں ہماری جان تھی ۔
۔سب 
دبیر کا خاندان ایک ماہ پہلے  ہماری گلی کے آخری مکان میں شفٹ ہوا تھا ۔ ۔ صرف ایک ہفتے بعد ہی دبیر کی بدمعاشی اور اوباش حرکتوں نے محلے کے لوگوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ ۔ چونکہ وہ ایک سیاسی پارٹی کا "فعال" کارکن  تھا اس لئیے محلے کے "شریف مردوں" نے اس سے الجھکر کہیں اسکی شکایت کرنے کے بجائے خود انحصاری کی بنیاد پر اپنی اپنی عورتوں کی حفاظت شروع کردی تھی۔ ۔ ۔ ۔ 
مگر ہم ! ! ! ! ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کیا کرتے ۔ ۔  ہمارے پاس تو کوئی مرد ہی نہ تھا 
صفیہ آپی کو آفس کی طرف سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت تھی مگر سنبل کو کالج کے لئے سٹاپ تک جانا پڑتا ۔ ۔ ۔ مجھے بھی جب کبھی گھر کے سودے سلف کے لئیے باہر نکلنا پڑتا تو ایسا ہی تلخ تجربہ ہوتا ۔ ۔
آج سنبل کی حالت نے میرے اندر غصہ بھر دیا تھا
۔ ۔ ۔  دل میں دبیر سے نمٹنے کا ارادہ لے کرمیں نے اپنے کپڑے جھاڑے ، بال درست کئے اور چادر سر پرلے کر گھر سے نکل آئی
گلی کے کنارے کھڑے دبیر کے فحش گانے کی آوازہمارے گھر کے دروازے سے ہی آنا شروع ہوگئی ۔ ۔ میں نے دھیرے دھیرے اُسکی سَمت قدم بڑھانا شروع کر دئے۔ ۔ ۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر اُس نے گانا بند کردیا اور ایک عامیانہ حرکت کرتے ہوئے اپنے دوست کی طرف قدرے جھک کر بلند آواز میں بولا۔ ۔ 
چھوٹی تو چھوٹی بڑی بھی قیامت ہے ۔ ۔ 
میں نے دل ہی دل میں اللہ اور امی بابا سے معافی مانگی ، سر سے چادر ڈھلکائی اور اُسکے قریب آکر مسکرا دی ۔ ۔ ۔
میں مرد تو تھی نہیں ۔ ۔ ۔  لہٰذا میں نے اپنی بہن کو عورت کی طرح بچانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔

 تحریر : فرحانہ صادق 

" تخلیق "

3 comments
۔
تکلیف کی تیز لہر دوڑی
یا اللہ میری مدد فرما!!
ذکیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے
کہ جو کچھ اسکے اندر مچل رہا ہے یکدم ہی باہر نکل جائے
درد کی شدت سے ذہن پھٹنے لگا
اس کی شکوہ بار نگاہیں بار بار آسمان کو اٹھ رہی تھیں 
 تو نے تخلیق کو اتنا مشکل کیوں بنا دیا ! !
وہ دھیان بٹانے کی کوشش کرتی رہی 
اس بار مہینے کا سودا جلد ہی ختم ہو گیا ہے  
بڑی خالہ نے کافی دنوں سے چکر نہیں لگایا
اجمل سے پوچھوں گی کل امی کے ہاں لے جائیں گے
صبا اور زین کے یونیفارم چھوٹے ہو رہے ہیں
اُف ! ! ! ! 
کوئی ایک بات بھی تو اسکے کرب کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی
چلو چائے پی لیتی ہوں
اچھا لاو یہ برتن ہی دھو لوں
وہ جھنجھلا رہی تھی
کیا کروں ! ! 
کیسے اپنی مشکل آسان کروں ! ! 
ایک اور شدید لہر
 کُلبلا کر سوچا
اب وقت آگیا ہے
ہاں ہاں اب وقت آگیا ہے
  اس نےادَھ دھلی پتیلی واپس سنک میں پٹخی اور تیزی سے کمرے میں داخل ہو گئی
مشکل آسان ہوا ہی چاہتی تھی
تخلیق کا عمل شروع ہوچکا تھا
دھیرے دھیرے
ڈائری کُھلی
قلم اُٹھا
اور
 اورلفظ موتیوں کی لڑیاں بنتے چلے گئے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فرحانہ صادق

  

النکاح مِن سنتی ۔ ۔ ۔

8 comments
صبا رو رو کر ہلکان ہوچکی تھی
بھوک ہڑتال،
لمبے لمبے سجدے، 
 ماں کی منت سماجت،
کچھ بھی تو کام نہ آیا
پیر کو کلثوم بیگم  نے  اسے نکڑ کی دکان والے سلیم کے ساتھ کالج سے واپس آتے دیکھا
اور منگل سے اس کے لیئے رشتے دیکھنے شروع کر دیئے
 سمجھدار عورت تھیں 
جان گئیں  کہ دیر کی تو پانی سر سے گزر جائے گا
گھر گھر پھرنے والی جمیلہ آپا کو دس ہزار اور جوڑے کا لالچ دیا 
 ہفتہ بھی نہ گزرا ،
 جمیلہ آپا اپنی ہی کسی دور کی  نند کے بیٹے کا  رشتہ لے کر آپہنچیں
 دو دن رسمی چھان بین ہوئی
ایک آدھ سے مشورہ کیا گیا
تیسرے دن کی صبح  کلثوم بیگم نے اعلان کر دیا مجھے استخارہ میں بشارت نظر آئی ہے
گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
صبا اب چُپ تھی
لڑکے والوں کو ہاں کہلوا دی گئی
ساس نندیں آئیں اور منگنی کی رسم پوری کی گئی
چھوٹی نند بڑے فخر سے سب کو بتا رہی تھی
بھابھی  بڑی خوش نصیب ہیں
بھائی جان تو راضی ہی نہ تھے
انہیں تو باہر پڑھنے جانے اور کمانے کا شوق تھا
وہ تو امی اور ہم نے ضد کی کہ جب تک شادی نہ کریں گے باہر نہیں جا ئیں گےتو مان گئے
مٹھائی بٹی تو  ہر طرف سے مبارکباد کے پیغام آنے لگے
صبا چُپ تھی
چھوٹی بہنوں کی چھیڑ چھاڑ بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہ لاسکی
کلثوم بیگم کے دل میں ہول اٹھتے جنہیں وہ شدت سے دبا دیتیں
جانے کس بات کا ڈر تھا جوانہوں نے صبا پرکڑی نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی
لڑکے والوں نے جلد ہی شادی کا عندیہ بھی بھیج دیا
شاید ماں بہنوں کو اپنے ارمان پورے کرنے کی جلدی تھی 
یا شاید لڑکے کو اپنا شوق
کلثوم بیگم کی توفکر سے نیندیں ہی اُڑ گئیں تھیں 
 ایک طرف شادی کی تیاری
تو دوسری طرف صبا کا سکوت
جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ ہو رہا تھا
گھر کی پہلی خوشی تھی سبھی نہال تھے
 مگرصبا  چُپ تھی
کلثوم بیگم کے خدشات آسمان کو چھو رہے تھے
ابٹن ہلدی تیل مہندی خوشبو
 کچھ بھی تو اُس پر اثر نہ کر رہا تھا
شادی کے دن سجی سنوری صبا کو دیکھ کر کلثوم بیگم کا دل بھر آیا
اسے گلے لگایا
ماتھے پہ پیار کیا
اور سرگوشی میں مجھے معاف کردے بیٹی کہتے ہوئے رو پڑیں
ماں کو روتا دیکھ کر چھوٹی بہنیں بھی رونے لگیں
اک اک کر کے سبھی عورتوں کی آنکھیں گیلی ہو گئیں
صبا نے سر جھکا لیا
وہ نہیں روئی ۔۔۔ وہ اب بھی چُپ تھی
جگہ دو جگہ دو! ! ! !  نکاح کا وقت ہو گیا مرد اندر آرہے ہیں
بڑے ماموں نے ہدایت کی کہ اونچی آواز میں ہاں کہنا تاکہ سب سُن لیں
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
نہیں ! ! ! ! ! !  ایک زور دار آواز گونجی
مگر اس آواز کی گونج فقط صبا کے دل تک تھی
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
 صبا چُپ تھی
کمرے میں بے چینی پھیل گئی
کلثوم بیگم بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے دل ہی دل میں خدا سے ساز باز میں مصروف تھیں
بات چالیس نوافل سے سو نوافل 
تین روزے 
اور  ہزار روپےکی نیازتک پہنچ چکی تھی
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
ہاں بولو یہ کہتے بڑی خالہ نے کمر میں زور سے ٹہوکا مارا 
سکوت ٹوٹا اورہلکی آواز آئی ۔۔۔۔۔ جی
مبارک ہو مبارک ہو۔۔۔۔ شور ہی شور
کلثوم بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا سب کو ایک طرف کر کے یہیں  سجدہ شکر بجا لائیں
کھانا چنا گیا رسمیں ہوئیں اور رخصتی ہوگئی
صبا چُپ چاپ سسرال پہنچی اور حجلہ ء عروسی میں جا بیٹھی
بقیہ رسمیں پوری کی گئیں 
شرارتی فقرے کسے گئے
دولھا مسکرا رہا تھا 
مگرسر جھکائے  صبا کے چہرے پرخوشی کا ایک شائبہ نہ تھا
 بڑی بہن نے سب کوڈانٹ کر کمرے سے نکال دیا
اب وہاں صرف دو لوگ رہ گئے تھے
دروازہ بند ہوا
تھوڑی دیر بعد بتی بھی بند ہو گئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
رات کا آخری پہر تھا
دونوں گھروں میں خاموشی تھی
سب ہی تھک کر سو چکے تھے
مگر کلثوم بیگم مصلیٰ بچھائےشکرانے کے  نوافل ادا  کر رہی تھیں
اور اُدھر
ایک خوابیدہ مہکتے کمرے میں
 زنا کا عمل جاری تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فرحانہ صادق