Wednesday 24 July 2013

النکاح مِن سنتی ۔ ۔ ۔

8 comments
صبا رو رو کر ہلکان ہوچکی تھی
بھوک ہڑتال،
لمبے لمبے سجدے، 
 ماں کی منت سماجت،
کچھ بھی تو کام نہ آیا
پیر کو کلثوم بیگم  نے  اسے نکڑ کی دکان والے سلیم کے ساتھ کالج سے واپس آتے دیکھا
اور منگل سے اس کے لیئے رشتے دیکھنے شروع کر دیئے
 سمجھدار عورت تھیں 
جان گئیں  کہ دیر کی تو پانی سر سے گزر جائے گا
گھر گھر پھرنے والی جمیلہ آپا کو دس ہزار اور جوڑے کا لالچ دیا 
 ہفتہ بھی نہ گزرا ،
 جمیلہ آپا اپنی ہی کسی دور کی  نند کے بیٹے کا  رشتہ لے کر آپہنچیں
 دو دن رسمی چھان بین ہوئی
ایک آدھ سے مشورہ کیا گیا
تیسرے دن کی صبح  کلثوم بیگم نے اعلان کر دیا مجھے استخارہ میں بشارت نظر آئی ہے
گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
صبا اب چُپ تھی
لڑکے والوں کو ہاں کہلوا دی گئی
ساس نندیں آئیں اور منگنی کی رسم پوری کی گئی
چھوٹی نند بڑے فخر سے سب کو بتا رہی تھی
بھابھی  بڑی خوش نصیب ہیں
بھائی جان تو راضی ہی نہ تھے
انہیں تو باہر پڑھنے جانے اور کمانے کا شوق تھا
وہ تو امی اور ہم نے ضد کی کہ جب تک شادی نہ کریں گے باہر نہیں جا ئیں گےتو مان گئے
مٹھائی بٹی تو  ہر طرف سے مبارکباد کے پیغام آنے لگے
صبا چُپ تھی
چھوٹی بہنوں کی چھیڑ چھاڑ بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہ لاسکی
کلثوم بیگم کے دل میں ہول اٹھتے جنہیں وہ شدت سے دبا دیتیں
جانے کس بات کا ڈر تھا جوانہوں نے صبا پرکڑی نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی
لڑکے والوں نے جلد ہی شادی کا عندیہ بھی بھیج دیا
شاید ماں بہنوں کو اپنے ارمان پورے کرنے کی جلدی تھی 
یا شاید لڑکے کو اپنا شوق
کلثوم بیگم کی توفکر سے نیندیں ہی اُڑ گئیں تھیں 
 ایک طرف شادی کی تیاری
تو دوسری طرف صبا کا سکوت
جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ ہو رہا تھا
گھر کی پہلی خوشی تھی سبھی نہال تھے
 مگرصبا  چُپ تھی
کلثوم بیگم کے خدشات آسمان کو چھو رہے تھے
ابٹن ہلدی تیل مہندی خوشبو
 کچھ بھی تو اُس پر اثر نہ کر رہا تھا
شادی کے دن سجی سنوری صبا کو دیکھ کر کلثوم بیگم کا دل بھر آیا
اسے گلے لگایا
ماتھے پہ پیار کیا
اور سرگوشی میں مجھے معاف کردے بیٹی کہتے ہوئے رو پڑیں
ماں کو روتا دیکھ کر چھوٹی بہنیں بھی رونے لگیں
اک اک کر کے سبھی عورتوں کی آنکھیں گیلی ہو گئیں
صبا نے سر جھکا لیا
وہ نہیں روئی ۔۔۔ وہ اب بھی چُپ تھی
جگہ دو جگہ دو! ! ! !  نکاح کا وقت ہو گیا مرد اندر آرہے ہیں
بڑے ماموں نے ہدایت کی کہ اونچی آواز میں ہاں کہنا تاکہ سب سُن لیں
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
نہیں ! ! ! ! ! !  ایک زور دار آواز گونجی
مگر اس آواز کی گونج فقط صبا کے دل تک تھی
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
 صبا چُپ تھی
کمرے میں بے چینی پھیل گئی
کلثوم بیگم بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے دل ہی دل میں خدا سے ساز باز میں مصروف تھیں
بات چالیس نوافل سے سو نوافل 
تین روزے 
اور  ہزار روپےکی نیازتک پہنچ چکی تھی
صبا احمد ولد سعید احمد ! !  تمہیں بعوض شرعی حق مہردانیال قیوم ولد عبدلقیوم اپنے نکاح میں قبول ہے
ہاں بولو یہ کہتے بڑی خالہ نے کمر میں زور سے ٹہوکا مارا 
سکوت ٹوٹا اورہلکی آواز آئی ۔۔۔۔۔ جی
مبارک ہو مبارک ہو۔۔۔۔ شور ہی شور
کلثوم بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا سب کو ایک طرف کر کے یہیں  سجدہ شکر بجا لائیں
کھانا چنا گیا رسمیں ہوئیں اور رخصتی ہوگئی
صبا چُپ چاپ سسرال پہنچی اور حجلہ ء عروسی میں جا بیٹھی
بقیہ رسمیں پوری کی گئیں 
شرارتی فقرے کسے گئے
دولھا مسکرا رہا تھا 
مگرسر جھکائے  صبا کے چہرے پرخوشی کا ایک شائبہ نہ تھا
 بڑی بہن نے سب کوڈانٹ کر کمرے سے نکال دیا
اب وہاں صرف دو لوگ رہ گئے تھے
دروازہ بند ہوا
تھوڑی دیر بعد بتی بھی بند ہو گئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
رات کا آخری پہر تھا
دونوں گھروں میں خاموشی تھی
سب ہی تھک کر سو چکے تھے
مگر کلثوم بیگم مصلیٰ بچھائےشکرانے کے  نوافل ادا  کر رہی تھیں
اور اُدھر
ایک خوابیدہ مہکتے کمرے میں
 زنا کا عمل جاری تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فرحانہ صادق
















    

8 comments:

  • 25 July 2013 at 04:56

    نبی ﷺ نے لڑکی لڑکے کی مرضی معلوم کرنے کا حکم دیا تو اس کے پیچھے کوئی حکمت تو تھی۔ لیکن کیا کریں سماج ہی ایسا ہے کہ پاغل منڈے، آوارہ لوفر پُتر کا علاج شادی۔ کُڑی پڑھ جائے یا ایسا کوئی شک پڑ جائے تو علاج شادی۔ اور زبردستی کی شادی، کہ بعد میں سدھر جائیں گے جی ذمہ داری پڑی تو۔ بعد میں زندگی میں گھلنے والا زہر کوئی نہیں دیکھتا۔

  • 26 July 2013 at 19:58

    عورت محض قربانی کا جانور ہے چاہے اپنی مرضی سے قربان گاہ کا سفر طے کرے یا پہلے اپنی انا کی قربانی دے ۔ اور قربانی کا آغاز اپنی ذات سے ہی ہو جائے تو جان نکلنے میں آسانی رہتی ہے ور نہ ساری زندگی مر مر کے جینا پڑتا ہے۔
    http://noureennoor.blogspot.com/2012/11/blog-post_9.html

  • 5 August 2013 at 13:21

    آپ نے معاشرے کے بہت اہم مسئلے پر لکھا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ ان موضوعات پر میں شادی کے بعد لکھو گا :-) ابھی لکھا تو دوستوں نے ہی کہنا ہے کہ ضرور اندر کوئی بات ہے جو یہ ایسی تحاریر لکھ رہا ہے۔ :-D
    خیر نکاح کے ضروری کاموں میں ایک اہم کام ایجاب و قبول ہے۔ اگر ہم ایجاب و قبول پر ”غور“ کریں تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ آزادانہ اور بغیر کسی دباؤ کے مرضی معلوم کی جائے۔ میرا خیال ہے کہ زبردستی یا کسی بھی قسم کے دباؤ سے چاہے لڑکی یا لڑکے پر والدین کی ”عزت رکھنے“ کا دباؤ ہی کیوں نہ ڈالا جائے یا کسی بھی قسم کے دباؤ سے ایجاب و قبول کروانا غلط ہے۔ کسی کا تو پتہ نہیں لیکن میرا خیال ہے اس طرح ایجاب و قبول سرے سے ہوتا ہی نہیں اور نکاح کا اہم رکن پورا نہیں ہوتا تو پھر نکاح کاہے کا؟
    یہ وہ بات ہے جو میں آج تک سمجھ سکا۔ باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

  • 10 August 2013 at 00:09

    اگر تو اس پوسٹ کو بطور ایک کہانی کے دیکھا جائے تو بڑی زبردست ہے۔
    لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، خاص کر آخری حصہ۔
    کیونکہ ہم جتنے بھی بیک ورڈ ہو جائیں، اسلامی روایات کو توڑنا بہرحال ناممکن سمجھتے ہیں۔

  • 26 August 2013 at 01:32

    مجھے نہیں معلوم مصنفہ کی اس مبالغہ انگیز تحریر کا مقصد کیا ہے؟ جو لڑکی نکڑ کی دکان والے سلیم کے ساتھ کالج سے واپس آنے کی جرات کر سکتی ہے وہ سر کو انکار میں بھی ہلا سکتی ہے اور گھر سے بھاگ کر بھی اپنی رائے بیان کر سکتی ہے ۔اگر ایک لڑکی اپنے والدین کی عفت و آبرو کی حفاظت نہیں کر سکی تو کیا اس کے والدین سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی صحیح قدم اٹھا سکتے؟ ہمارے اسی فیصد گھرانوں میں رشتے اسی انداز میں ہوتے ہیں لیکن ہر بات اور قدم کو شک اور طنز کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد مجھے انتظار ہوگا کہ مصنفہ عورت کے اوپر ہونے والے زچگی کے دکھ کو موضوع بنا کر اس کی مظلومیت کو کب بیان کرتی ہیں

  • 26 August 2013 at 07:41
  • 25 May 2014 at 03:49

    اصل میں مسائل اس سے زیادہ گمھیر ہیں۔ یہ تو نہایت معمولی بات ہے۔ لیکن اس کا کیا جو شادی سے پہلے ہی ماں باپ بننے والے ہوتے ہیں اور پھر انکی شادی کر دی جاتی ہے۔ اور میں حیران اس مولوی پر ہوں جو سب جانتے بوجھتے بھی نکاح کر دیتا ہے۔ کیا وہ اولاد اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام لکھنے میں فخر کرے گی؟ میری طرف سے داد قبول کییجیئے۔

  • 30 May 2014 at 03:32

    M. Azam yaad
    بات یہ نہیں ھے کہ کہانی میں جو لکھا گیا ھے وہ درست ھے کہ غلط ۔ مصنفہ نے لڑکیوں کی طرف سے ایک سوال رکھا ھے ۔ یہ معاملہ ضروری نہیں کہ ایک ایسی لڑکی کے ساتھ پیش آتا ھے جو محلہ میں ناصر کے ساتھ دیکھی گئی ۔ یہ بات ھر اس لڑکی متعلق سوال پیدا کرتی ھے جو گھر میں بیٹھی ھے اور جس سے اس طرح ایجاب و قبول کروایا جاتا ھے ۔ عمومی لڑکی کو اگر لڑکا پسند نہیں ھے تو بارات تو دروازے پر آگئی ھے ۔ کیا اب وہ انکار کر سکتی ھے ؟ جبکہ والدین کہیں بہن کو رشتہ دے کر خوش ھو رھے ھیں اور کہیں بھائی کو ۔ اپنی عزتیں بنائی جا رھی ھیں ۔ اس پر باقاعدہ تحقیق ھونی چاھیئے کیا اسلام میں ایسے ھی لڑکی کی مرضی پوچھنے کا کہا گیا ھے ؟

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔