Thursday 25 July 2013

ادریس آزاد صاحب کی کہانی " عشق کا ادھورا افسانہ " سے متاثر ہو کر لکھا گیا اقتباس

0 comments


                                                                                   (کتاب: عورت ابلیس اور خدا )


"عشق کا ادھورا افسانہ "

.

.







فریادی کے وکیل- صفائی کا بیان....



" استغاثہ کی ہر بات تسلیم مگر کہانی  کچھ یوں ہوئی کہ.......  محبوب اب خود سراپا عشق تھا ....فریادی سے محبت کا یہ عالم ہوا کہ اسکی دلجوئی کے لئے اسکی جوڑی دار اس ہی کی پسلی سے تخلیق کردی گئی..... ناز - محبت میں محبوب کا امتحان لیا گیا....لغزش مقصود تھی اسی لئے قوت - لغزش عطا  کی گئی تھی.......سو گناہ ہوا ......کوئی نہیں جانتا محبوب اور اسکی جوڑی دار میں جدائی کی سزا بوجہ حسد (شرک..... خدا کے ساتھ اپنی محبت میں کسی کو شریک کرنا ) دی گئی یا براے اصلاح .......

اب فریادی صرف ایک تخلیق اور محبوب خالق تھا..... وقت گزرتا رہا اشک - ندامت پرندوں  کو سراب کرتے رہے.....رحمت - خداوندی جوش میں آئ....سزا تمام ہوئی ....معافی نامہ  کے ساتھ کائنات کے سر بستہ رازوں کو کھوجنے کا حکم جاری ہوا.....پھر یوں ہوا کہ فریادی کو رنگینی کائنات میں مبتلا  دیکھ کر محبوب کا جذبہ خداوندی پائمال ہونے لگا....عاشق کی توجہ کے لئے جنت کا لالچ اور دوزخ کا ڈراوا دیا گیا.......مگر



اس بار تو عاشق کے سامنے لا متناہی خوش رنگ نظارے تھے ....اور ہر نظارے میں اسکا محبوب ہی چھپا تھا.....سو وہ یہ کہتا ہوا چل دیا...



         باغ بہشت سے مجھے ازن - سفر دیا تھا کیوں

 کار - جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

                

(افسانہ بہرحال اب بھی ادھورا ہی ہے )

                                           فرحانہ صادق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔