Monday 26 August 2013

" اُف یہ انشائیہ ''

0 comments



انشائیے پر انحراف کے تخلیقی و تنقیدی پروگرام کے سلسلے میں موصول ہو نے والا محترمہ فرحانہ صادق کا انشائیہ

نوٹ: جو لوگ اس تحریر کو انشائیہ سمجھ کر پڑھیں گے وہ یقیناً اِس کو ویسا ہی پائیں گے جیسا ایک انشائیہ کو چاہتے ہیں ۔

یہ بات خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ادب کی اس خاص صنف انشائیہ کو شیطان سے ایسا کیا خطرہ تھا کہ اُس کے قید ہوتے ہی رحمان حفیظ صاحب نے انحراف میں اِس کے حوالے سے غلغلہ مچا دیا ۔ ابھی چوتھی سحری کا قرض بھی نہ اترا تھا کہ معراج رسول صاحب کا پیغام آ پہنچا کہ نثر نگار ہونے کا حق ادا کرو اور انشائیہ کے ایونٹ میں اپنا حصہ ڈال جاو۔ ہمیں اس کارِ خیر میں شرکت سے کوئی اعتراض تو نہ تھا پر ایک بات کا گلہ ضرور ہوا۔۔۔۔ کہ اتنے عرصے کی بات چیت کے بعد بھی وہ اس تشکیک میں مبتلا ہیں کہ آیا ہم مسمی ہیں یا مسماۃ۔ ہمیں یہ شکایت دعوت نامے پر لکھے اُن القاب کی وجہ سے ہوئی جس میں ہمیں محترمہ کے ساتھ محترم بھی پکارا گیا۔

انشائیہ کا لفظ ہمارے لیئے اتنا مانوس نہ تھا ،ہم سے اس کے تعارف کا سہرا ادریس آذاد صاحب کے سر جاتا ہے۔۔۔۔ ایک بار انہوں نے مخلصانہ مشورہ دیا کہ تم شاعری چھوڑو صرف انشائیے لکھو( ہو سکتا ہے ان کے اس خلوص کی اصل وجہِ تسمیہ ہماری وہ غزل رہی ہو جو ہم نے انہیں تصحیح کے لیئے ارسال کی ہوئی تھی اور جسکی قطعاتی بحر دیکھ کر خود انکا عروض پر سے ایمان اُٹھ رہا تھا ) ۔۔۔۔ ہم انکے مشورے پر فوراً عمل کر لیتے لیکن مجبوری یہ تھی ۔۔۔۔ کہ ہم تو انشائیے کو عطا الحق قاسمی کی کتاب " عطائیے " کی طرح ابنِ انشاء کے کسی دیوان کا عنوان ہی سمجھتے تھے ۔۔۔ ہم نے اُن سے انشائیہ کی بابت دریافت کیا تو قدرے حیران ہو کر بولے ارے وہی جو تم لکھتی ہو ۔۔۔۔
 اس بار حیران ہونے کی باری ہماری تھی ۔۔ اپنی یاداشت کو ٹٹولا کہ ہم کیا کیا لکھتے ہیں ۔ غزل ، نظم ،نثر، سلیبس پلانرغرض کہ سودے کا پرچہ اور دھوبی کا حساب سب زہن سے باری باری گزر گئے مگر ان میں سے کوئی بھی ہمیں انشائیہ نہ لگا ۔۔۔۔ ڈرتے ڈرتے پھر عرض کیا قبلہ ہم تو بہت کچھ لکھتے ہیں کچھ اور مزید تعریف بتادیں کہنے لگے ۔۔۔ وہی جو تم سب سے زیادہ لکھتی ہو اور میں اسے ضرور پڑھتا ہوں ۔۔۔۔ہم نے جواب دیا سب سے زیادہ تو ہم ایس ایم ایس لکھتے ہیں جو آپ کبھی پڑھتے ہی نہیں اور نہ کبھی اُسکا ریپلائی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر یہ بات ہم نے دل میں ہی کہی کیوں کہ وہ ہمارے استاد ہیں اور شاگرد کی طرف سے ایسا جواب آنے کی صورت میں استاد ناراض ہو جاتے ہیں اور کافی دیر تک ناراض رہتے ہیں ( یہ ہمارا ذاتی تجربہ بھی ہے ) ۔۔۔۔

 اس سوال کا جواب معلوم کر نے کے لیئےکہ آیا انشائیہ ہوتا کیا ہے سب سے پہلے ہم نے لغت کو کھنگالا مگر اس میں سوائے اس لفظ کے معنیٰ " کوئی بات بیان کرنا " کے کچھ نہ ملا ۔۔۔ پھر اِس کے حوالے سے جتنی کتابیں نیٹ پر دستیاب تھیں سب کا جائزہ لیا مگر اسمیں موجود تحریر کی ثقالت اور جناتی طرزِ بیان کے باعث کوئی بھی مضمون دو سطر سے زیادہ ہضم نہ کر پائے ۔۔۔۔۔۔ اس ناکامی کے بعد سوچا کسی ادبی شخص سے ہی پوچھا جائے سو اپنے ایک قریبی دوست ( جنکا نام ظاہرنہ کرنا ہماری مجبوری ہے بس آپ پہچان کے لیئے اتنا جان لیجیئےکہ قریبی دوست ہونے کے باوجود وہ ہماری فرینڈ لسٹ میں نہیں ) سے انشائیہ کے متعلق رائے مانگی انہوں نے اسکا تسلی بخش جواب دینے کے لیئے مہلت توتھوڑی دیر کی مانگی مگر مشرقی روایات کو پوری طرح نبھاتے ہوئے دو دن بعد اسکا کچھ یوں جواب دیا ۔۔ "وہ تحریرجسے لوگ انشائیہ سمجھتے ہیں وہ انشائیہ نہیں ہوتی ، اور وہ تحریر جو بظاہر انشائیہ نہ لگے وہی اصل میں انشائیہ ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کیوں انکا یہ جواب پڑھ کر ہمارے دل میں ایک شک دوڑ گیا کہ یہ کہیں سدرہ کی فیک آئی ڈی تو نہیں کیونکہ یہ دلیل اسی کے انشائیہ کے حق میں جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا سوچا کیوں نہ پہلے انشائیہ لکھ لیا جائے بعد میں دیکھیں گے یہ ہوتی کیا بلا ہے ۔۔۔۔۔۔ خوب دل لگا کر ایک مضمون تیار کیا اب کسی کو دیکھانے کا مسئلہ تھا ۔۔۔ دوستوں کی فہرست میں ڈاکٹر ناہید ہی سب سے زیادہ بے ضرر لگتی ہیں سو انہی کو بھیج دیا ۔۔۔۔ انہوں نے رائے دی کہ فری انشائیے میں کوئی مقصد نہیں ہوتا سو ہم نے اپنے مضمون سے مقصدیت کو نکال پھینکا پھر کہا کوئی خاص ترتیب بھی نہ ہو ۔۔۔ ہم نے جملوں اور پیراگراف کوگڈ مُڈ کردیا انہیں پھربھی چین نہ آیا لکھ بھیجا کہ انشائیہ کی اصل خوبصورتی تو اسکا احساس ِعدم ِتشکیل ہے سو اسکا اختتام نکال دوپھر یہ انشائیہ ہو جائے گا انکی یہ فرمائش پوری کرنے کے بعد جب ہم نے اپنے مضمون پر نظر ڈالی تو اسکا حدود ِ اربعہ ایسے رہ گیا تھا جیسے مہینے کے تیسرے ہفتے میں ہماری تنخواہ کٹی پھٹی رہ جاتی ہے ۔۔۔۔

 انشائیہ کے حوالے سے تشنگی ابھی بھی ختم نہ ہوئی تھی ہم ادھر اُدھر نظرمار ہی رہے تھے کہ انحراف میں معراج رسول صاحب کا انشائیہ کے تعارف پر ترتیب دیا گیا مضمون شائع ہوا۔۔۔۔۔۔ جی خوش ہو گیا کہ اب تو ہم یہ جان لینے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے کہ انشائیہ ہے کس چڑیا کا نام ۔۔۔۔ مشکل الفاظ اور مبہم اصطلاحات سے پھر پور مضمون پڑھا اور دل ہی دل میں مصنف کو خوب شاباشی دی کہ وہ اپنی اس کوشش میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں کہ کسی کو بھی آسانی سے سمجھ نہ آسکے کہ انشائیہ ہوتا کیا ہے ۔۔۔۔

۔بحرحال اتنی چھان بین اور تگ و دو کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ " انشائیہ دراصل وہ تحریر ہے جو ایک قاری اس امید پر پوری پڑھتا ہے کہ شاید اس میں سے کوئی کام کی بات نکل آئے مگر مایوس رہتا ہے "اب تک کے لکھے گئے انشائیوں میں سے دس فیصد کے کچھ مصرف بھی نکالے جا چکے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر نوے فیصد انشائیے وہ ہیں جن میں قاری ناکام رہے اور مصنف کامیاب ۔۔۔۔۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارا انشائیہ بھی انہی نوے فیصد میں شامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔

(وہ تمام احباب جنکے حوالے سے اس تحریر میں بات کی گئی ہے اگر انہیں کچھ گراں گزرا تو پیشگی معزرت سوائے سدرہ کے )
 :)))))))))))))))))))))))))))))

فرحانہ صادق

Friday 2 August 2013

ڈارون اور ہم

4 comments


مجھے لگتا ہے ڈارون کے اس نطریہ سے کہ ہم سب بندر کی اولاد ہیں ۔۔۔ بندر بھی بہت ناراض ہوئے ہوں گے اور آج تک ناراض ہیں تبھی تو کبھی کپڑے لے کر بھاگ جاتے ہیں تو کبھی جوتے لے کر ۔ ۔۔ویسے کچھ لوگوں کو دیکھ کر تو قائل ہونا پڑتا ہے ڈارون بے چارہ ٹھیک ہی کہتا تھا مگر اس بات کا اصرار ضرور ہے کہ سبھی کے آباء و اجداد بندر نہ ہوں گے کچھ کے گدھے ، کتے ، اور گدھ بھی رہے ہوں گے اور تو اور کچھ خواتین کو دیکھ کر بے اختیار انکا شجرہ شیرنیوں سے ملانے کو چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
ڈارون کی تھیوری کا ایک فائدہ تو ہے ۔ ۔ ۔ مسجد سے جوتیاں چرانے کا الزام بآسانی بزرگوں کی طرف سے وراثت میں ملنے والی خصلت پر ڈالا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کبھی بندروں کو غور سے دیکھو تو صاف پتا چلتا ہے کہ آباءاجداد کے حوالے سے جو شکوک انسان کو بندروں پر تھے وہی بندروں کو بھی انسانوں پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔
دُم جیسی قیمتی اور فائدہ مند چیز سے محرومی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈارونی نظریہ کا دُکھ فی زمانہ محسوس کیا جاسکتا ہے مگر کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات اب بھی باقی ہیں
جیسے کہ
۔
آخر یہ ارتقاء محدود پیمانے اور محدود مدت کے لیئے ہی کیوں ہوا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جو باقی بچنے والے بندر ہیں وہ ابھی تک کس جرم میں بندرہیں ؟؟؟؟؟
یہ ارتقائی عمل رُک کیوں گیا ہے ہم صدیوں سے انسان ہیں ، انسان ہی کیوں ہیں حالانکہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اپنی پہچان کے لیئے دُم اور سینگوں کی اشد ضرورت ہے ؟؟؟؟
حیوانی ارتقاء کی ایک منزل انسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی ارتقاء کا اگلا پڑاو کس شکل میں ہے ؟؟؟؟؟؟؟

فرحانہ صادق بقلم خود :))))))))))))))))))))))))))