Wednesday 9 July 2014

شہید

1 comments

 

  جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتے ہیں وہ شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں "

مسجد کے مرکزی ہال میں موجود سینکڑوں لوگ بڑی توجہ اورعقیدت سے مولوی اصغر الدین کا بیان سن رہے تھے

"شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ اللہ کے حکم سے اسکو رزق ملتا رہتا ہے "

 اسکے علاوہ شہادت کے ادنیٰ درجات بھی ہیں جیسے

حصول علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے

جو جل کر مرجائے وہ بھی شہید ہوگا

جو ڈوب کر مر جائے  یا پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید کہلائے گا۔

حاضرین کے چہرے مسرت سے روشن ہوگئے 

مولوی صاحب کے بیان کے مطابق انکے کتنے ہی عزیز شہیدوں کے زمرے میں آتے ہیں 

" اور یہ دیکھئے عورتوں پر اللہ کا خاص احسان ۔۔۔۔۔ کہ جو عورت زچگی کی حالت میں مرے گی وہ بھی شہید کہلائے گی "

یہ سن کر درمیانی صف میں سر جھکاکر بیٹھا ہوا ایک نوجوان جھٹکے سے چونکا اور بلا ارادہ کھڑا ہوگیا 

مولوی صاحب سمیت تمام لوگوں نے اسے استفساری نظروں سے دیکھنا شروع کردیا 
اتنے لوگوں کی توجہ پر نوجوان گھبرایا مگر فورا ہی سنبھل کر بولا ۔۔۔۔

" میں یہ پوچھنا چاہتا تھا جناب کہ  ۔ ۔ ۔۔ ۔  غیرت کے نام پر باپ بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوی عورت بھی کیا شہید کہلائے گی ؟؟؟؟"

حاضرین کی منتظر نظروں کا رخ اب مولوی صاحب کی طرف تھا جن کی پیشانی عرق آلود ہو رہی تھی ۔۔۔۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرحانہ صادق 

1 comments:

  • 10 July 2014 at 05:46
    Anonymous :

    ایسا کیوں ہے کہ آدمی یا مقام بدلنے کے ساتھ غیرت کے معنی بھی بدل جاتے ہیں ؟ پرانی بات ہے اپنے ملازمین کا ہم لوگ خوب خیال کرتے رہے ۔ ایک بار غلطی کرنے پر میری بیوی نے غصہ کیا ڈانٹا نہیں تو وہ ہمارے ہاں سے چلے گئے ۔ چند سال بعد مرد سے سڑک پر میری ملاقات ہو گئی ۔ کپڑے پھٹے ہوئے ۔ گال اندر دھنسے ہوئے ۔ پوچھا ” کیا بیمار رہے ہو ؟“ بولا ”نہیں“۔ پھر کہا ”یہ کیا حال بنا ہے ؟“ جواب ملا صاحب لوگ بہت سخت مزاج ہیں کھانے کو کم دینے ہیں اور کام بہت لیتے ہیں“۔ میں نے کہا ” تو واپس ہمارے پاس کیوں نہ آئے ؟“ بولا ”غیرت آتی تھی“۔
    دوسرا واقعہ پڑھے لکھے ایک میرے کولیگ افسر کا بھی سُنیئے ۔ اُس افسر کا ایک محلہ دار قتل ہو گیا ۔ قاتل اور مقتول دونوں پڑھے لکھے اور اچھے عہدوں پر تھے ۔ میں نے اپنے کولیگ افسر سے وجہ پوچھی تو بولا ”قاتل بعد دوپہر کسی وجہ سے غصہ میں مقتول کے گھر گیا اور دروازہ زور زور سے کھٹکایا ۔ مقتول نے باہر آ کر قاتل کو گالیاں دیں اور واپس اندر چلا گیا ۔ قاتل گھر گیا اور بندوق اُٹھا لایا اور قاتل کو آواز دے کر باہر بلایا ۔ جب وہ باہر آیا تو اُس پر فائر کھول دیا ۔ آخر غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے“۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔